Hadith

  • Abu Bakr (Razi Allah Anhu) except from all Prophets are supreme in all human beings.(Tibrani)
  • The most merciful on my Ummah, in my Ummah, is Abu Bakr (Razi Allah Anhu). (Tirimzi)
  • Tell Abu Bakr from my side to offer Salat to people (Muslims). [In absence of Prophet Muhammad (salallho alhe waslam)] (Bukhari, Muslim, Tirimzi, Ibn-e-Majah)

امام العاشقین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نعرہ
(Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi, Narowal)

آپ کا وصال22جمادی الثانی کو ہوا
”جناب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس امام العاشقین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر ہوا تو رو پڑے ۔ فرمانے لگے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کاش! میرے تمام اعمال ،ابو بکر کے دنوں میں سے ایک دن کے اعمال جیسے یا انکی راتوں میں سے ایک رات کے اعمال جیسے ہوتے ۔پس رات تو انکی وہ رات ہے جب وہ رسول اللہ ﷺ کیساتھ غار کی طرف چلے ۔ جب وہاں پہ پہنچے تو بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا قسم بخدا آپ اس میں داخل نہیں ہونگے جب تک میں اس میں داخل نہ ہو جاﺅں ،کیونکہ اگر اس میں کوئی چیز ہے تو اسکی تکلیف آپکی جگہ مجھے پہنچے پس وہ داخل ہوئے اور اسے جھاڑ پونچ کر دیکھا اس کے ایک طرف سوراخ تھے تو اپنی ازار یعنی تہبند کو پھاڑ کر انکو بند کر دیا ،دو سو راخ باقی بچ گئے تو انہیں آپ نے اپنی ایڑیوں سے روک لیا اور بند کر دیا ۔پھر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ میں عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ۔پس رسول اللہ ﷺ اندر داخل ہوئے اور انکی گود میں سرِ انور کو رکھ کر سوگئے ۔پھر سوراخ سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈسا گیا ۔ انہوں نے اس ڈر سے حرکت نہ کی کہ رسول اللہ ﷺ بیدار ہوجائیں گے ۔لیکن امام العاشقین کے آنسو رسول اللہ ﷺ کے چہرہ والضحیٰ پر گر پڑے ۔محبوب کبریا ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر ! کیا بات ہے؟ آپ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پہ فدا ہوں میں ڈس لیا گیا ہوں ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا لعاب دہن لگا دیا تو انکی تکلیف جاتی رہی ۔پھر (بوقت وصال) اس زہر نے عود کیا اور وہی زہر انکی وفات کا سبب بنا ۔رہا انکا دن جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو اس وقت بعض اہل عرب مرتد ہو گئے اور کہا کہ ہم زکوٰة نہیں دیں گے ،انہوں نے فرمایا کہ اگر وہ اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی رسی بھی روکیں گے تو میں اس پر ان کیساتھ جہاد کروں گا ۔میں عرض گزار ہوا کہ اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ! لوگوں سے اُلفت کیجئے اور ان سے نرمی سے سلوک فرمائیے!پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ ( اے عمر رضی اللہ عنہ ) تم جاہلیت میں بہادر اور دورِ اسلام میں بزدل ہو گئے ہو بیشک وحی منقطع ہو گئی ،دین مکمل ہو گیا ،کیا یہ میرے جیتے جی گھٹ جائے گا۔“ (مشکوٰة المصابیح ،باب مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ ، الفصل الثالث ،صفحہ 446طبع قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

تشریح:ذکر کردہ حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں انہوں نے امام العاشقین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان کا ذکر کیا ہے اور اس پہ رشک کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں ”کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کاش! میرے سارے کے سارے اعمال ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دنوں میں سے ایک دن کے اعمال جیسے یا انکی راتوں میں سے ایک رات کے اعمال جیسے ہوتے ۔“

اور یہ بات کوئی معمولی نہیں بلکہ اس عظیم مرتبت شہرہ آفاق ہستی کی زبان حق ترجمان سے یہ الفاظ صادر ہوئے ہیں جن کی موافقت میں قرآن کریم کی کئی آیات کا نزول ہوا ہے اور جن کی رائے وحی ربانی کے موافق ہوا کرتی تھی ۔اور جن کو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا اور جن کی شان یہ ہے کہ جب اسلام قبول کیا تو چھپ چھپ کر نمازیں ادا کرنیوالے مسلمان اعلانیہ عبادت خدا وندی کا فریضہ سر انجام دینے لگے گویا اسلام کو انکی بدولت تقویت حاصل ہوئی اور ساری زندگی حضور ﷺ کی غلامی و محبت کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں بسر کر دی ۔اور احادیث سے ثابت ہے کہ شیطان حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے ۔گویا کائنات کے سب سے بڑے کافر شیطان پر بھی آپ رضی اللہ عنہ کا رعب اور دبدبہ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اتنے آسمان کے ستارے نہیں جتنی آپکی نیکیاں ہیں ۔مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ اگر کوئی عام آدمی کسی کی شخصیت کے حوالے سے کلمات ستائش بولتا ہے تو اسکی وہ قدر و قیمت نہیں ہو گی جو کہ کسی جامع فضائل و کمالات شخصیت کے کلمات تحسین کی وقعت ہو گی ۔

امام العاشقین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول ﷺ:پیش نظر حدیث پاک میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غارِ ثور والا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اللہ کی قسم آپ ﷺ اس غار میں اس وقت تک اندر داخل نہ ہوں جبتک میں اندر جا کر دیکھ نہ لوں کہ اگر اسکے اندر کوئی چیز ہوئی تو اسکا ضرر و نقصان آپ کو نہیں صرف مجھے ہی پہنچے گا ۔“ایسی بات وہی کہہ سکتا ہے جو کسی کے عشق میں مکمل طور پہ ڈوبا ہوا ہو ،جو اپنا تن ،من ،دھن ،محبوب کے اشارہ ابروپہ قربان کرنے کا سچا جذبہ رکھتا ہو ۔تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ کلیةً عشق مصطفےٰ ﷺ کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر قرب خداوندی اور قرب مصطفی ﷺ کے لا زوال موتی چن رہا ہے ۔

اب آئیے ! سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عشق رسول ﷺ کی چند جھلکیاں ملا حظہ کریں اور پھر انکی اقتداءو پیشوائی میں عشق رسول اللہ ﷺ کے سمند میں غوطہ زن ہو جائیے ۔

سرکار ﷺ کے فرمان پہ مال بھی قربان ہے :امام ابو داﺅد اور امام ترمذی اپنی سندوں کیساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :”سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم صدقہ و خیرات کریں ،تو اتفاقاً اس موقعہ پہ میرے پاس مال تھا تو میں نے کہا کہ اگر آج میں ابو بکر سے سبقت لے جا سکا تو سبقت لے جاﺅ ں گا۔(ورنہ پھر کبھی نہیں ) چنانچہ میں اپنا نصف مال بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں لے کے حاضر ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (کہ اے عمر رضی اللہ عنہ) گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ کے آئے ہو ،میں عرض گزار ہوا حضور جتنا مال آپکی خدمت میں پیش کیا اتنا گھر والوں کے لئے چھوڑ ا ہے ۔بعد ازاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور آپ کے پاس جتنا مال موجود تھا سارے کا سارا لے آئے۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر !گھر والوں کے لئے کیا باقی چھوڑ کے آئے ہو ،عرض کیا ان کے واسطے اللہ اور اسکے رسول (ﷺ) کو باقی چھوڑا ہے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ میں کسی چیز میں کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے نہ بڑھ سکوں گا۔امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن اور صحیح ہے ۔

سرکار ﷺ کی محبت پر اولاد بھی قربان ہے:اما م جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : ”ابن عساکر اپنی سند کیساتھ حضرت ابن سیرین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) بدر والے دن مشرکین مکہ کے ساتھ تھے چنانچہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ایک روز اپنے باپ سے کہنے لگے ابا جان بدر کے روز آپ میرے نشانے پر آئے لیکن میں نے آپ سے اعراض کیا اور آپ کو قتل نہ کیا ؛۔پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :لیکن (اے میرے بیٹے) اگر تو میری تلوار کی زد میں آجاتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا یعنی قتل کر دیتا۔“(تاریخ الخلفاء)

سرکار ﷺ کی محبت میں جان بھی قربان ہے:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سائے کی طرح حضور نبی کریم ﷺ کیساتھ رہے اور کفار و مشرکین سے آپ ﷺ کا دفاع کرتے رہے ہجرت کے موقع پر اپنی جان کو خطرات میں جھونک کر جو سفر ہجرت کیا ،وہ اظہر من الشمس ہے اور پھر جب غار ِ ثور تک پہنچے پہلے خود اندر داخل ہوئے تاکہ کسی موذی جانور کیطرف سے گزند پہنچے تو میری جان کو پہنچے ،بلکہ فی الواقع یونہی ہوا کہ مذکورة الصدر حدیث پاک کے مطابق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ڈسا گیا تو آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ڈسا گیا ہے تو حضور ﷺ نے اپنا لعاب دہن لگایا تو آپ رضی اللہ عنہ کی تکلیف جاتی رہی ،لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت سے آپ رضی اللہ عنہ کو شہادت کا رتبہ بھی ملنا تھا لہٰذا بوقت وصال اس زہر نے عود کیا اور وہی زہرا نکی موت کا سبب بنا ۔

کشتہ عشق مصطفےٰ ﷺ اور منکرین زکوٰة:مذکورة الصدور حدیث مشکوٰة کے آخری حصہ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت ہم پر واضح ہو جاتی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا صحیح معنوں میں جانشین اور نائب ہونے کا حق ادا کیا ہے ،زکوٰة جو کہ اسلام کا بنیادی رکن ہے بعض عرب نے جب اسکی ادائیگی سے انکار کر دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے نیابت رسول اللہ ﷺ کا حق ادا کرتے ہوئے منکرین زکوٰة کے فتنہ کو اپنے انجام تک پہنچایا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اس سلسلے میں اپنی رائے ظاہر کی کہ حضرت! آپ لوگوں پہ سختی نہ کریں ،نرمی اور محبت کا سلوک کریں تو اس موقع پہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایسا جواب دیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور فرمایا کہ اے عمر ! جاہلیت میں تم بہادر اور دور ِ اسلام میں تم کمزور اور بزدل ہو گئے ہو؟ پھر آپ نے بات کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وحی کا آنا بند ہو گیا اور دین مکمل ہو گیا ہے آیا یہ میرے جیتے جی گھٹ جائے گا؟

قارئین کرام! سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کے محافظ کے طور پر جلیل الشان مجاہدانہ کردار پیش کیا اور آنے والی نسلوں کو یہ درس دے گئے کہ لوگوں! اگر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو محبت عشق مصطفےٰ ﷺ کو لازم پکڑ لو اور اسلام کے سنہری اُصولوں کو اپنا لو ،اور پھر وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ اپنا سچا وعدہ پورا فرما دے گا کہ ۔وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ۔”اور تم ہی غالب ہوا گر تم مومن ہو۔“

چنانچہ عالم اسلام کے مسلمان آج بھی اگر اپنا سابقہ مقام بحال کرنا چاہتے ہیں اور دیگر اقوام عالم کو اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسے اسلاف کے نقش قدم کو نصب العین بنانا ہو گا ۔اور اگر خدانخواستہ دین سے دوری اس رفتار سے بڑھتی رہی جیسے کہ لوگ تیزی کیساتھ دین سے دور ہو رہے ہیں تو پھر وہ دن دور نہیں کہ :
تمہاری داستاں تک نہ رہے گی داستانوں میں